غریب


آج پھر وہ ایک سوچ میں گم تھا کہ کب ہماری زندگی میں خوشیاں آئیں گی۔ کب ہماری زندگی سے اندھیرے ختم ہوں گے۔ کب ہم لوگوں کی طرح اچھی زندگی گزاریں گے۔ کیا ہماری قسمت میں غم، درد، مصیبت، اذیت اور غربت کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہے۔ کب غربت و مفلسی ہمارا پیچھا چھوڑے گی۔ میں نے غربت، ناداری اور مفلسی میں آنکھ کھولی تھی اور لگتا ہے خوشیوں کا انتظار کرتے کرتے ہم اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ اچانک ہی اس کے دل میں ایک درد سا محسوس ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔