پاکستان میں جمہوریت کا پودا پروان چڑھ رہا ہے گو کہ ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کہ فوج کی جانب سے مداخلت کے بغیر ایک منتخب سویلین حکومت کا عرصہ ختم ہوا اور دوسری کام کررہی ہے ۔عوام کی سطح پر ابھی تک یہ تاثر قائم نہیں ہوا کہ جمہوریت انکے مسائل کے حل کا ذریعہ بن پائے گی ۔سیاست دانوں جن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں یہ یقین پیدا کریں ۔اب تک ایسا کوئی کام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ جمہوریت کو مضبوط کرنے اور اس کے ذریعے عوام کا یقین بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ آمر اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے ایسی ایڈھاک پالیسیاں بناتے ہیں جن سے عوام کے بڑے حصے کو آمریت کو قبول کرنے کا جواز مل سکے ۔آمر اپنے اقتدارکو مضبوط کرنے کیلئے معاشرے کی ایسی قوتوں کو بھی اپنی حمایت کیلئے تیار کرلیتے ہیں جو عام حالات میں عوام کی نمائندہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتیں ۔اس طرح مل جل کر اور اپنے اپنے مفادات کے تابع یہ حکمرانی چلتی رہتی ہے چونکہ یہ سارا نظام ایڈھاک ازم پر ہوتا ہے اس لیے دیرپا نہیں رہتا اور عوام تبدیلی کیلئے متحرک ہوجاتے ہیں ۔آمریت کے ماتحت خفیہ ادارے حاکمیت کے لیے با اثر افراد،طبقات،سیاسی پارٹیوں،کو ساتھ ملانے کیلئے کام کرتے ہیں ۔پھر یہ گروہ اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کیلئے ریاست کو استعمال کرتے ہیں اور طاقتور بن جاتے ہیں ۔ریاست کے اداروں سے طاقتور یہ افراد،طبقات،گروہ اور سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو کسی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتیں۔ عوام طاقت کی حکمرانی تلے ایسی نفسیات میں جیتے ہیں جو غلاموں کی ہوتی ہے۔آج ہمارا معاشرہ ایسی ہی غلامانہ ذہنیت پر مشتمل ہے۔
اندرونی و بیرونی عوامل کی وجہ سے ملک میں سویلین حکمرانی کا سلسلہ تو چل نکلا ہے لیکن آمریت کے سائے تلے پروان چڑھنے والے سیاسی رہنما طاقت کی سیاست کے علاوہ کچھ ماننے پر تیار نہیں ۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ ریاست کے تمام ستون ایسی ہی ذہنیت کا شکار ہیں۔ان حالات میں ہمیں اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا کہ ہم تجویز کریں کہ ہمالیہ جتنے دعوے کرنے کی بجائے معاشرتی تبدیلی اور عوامی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے چھوٹے چھوٹے کام کیے جائیں جن کا براہ راست تعلق عوام اور انکی بنیادی ضروریات سے ہو ۔مثلاً طبی سہولیات کی فراہمی پر بہت بحث کی جاتی ہے ایسے ایسے پروجیکٹس زیر بحث لائے جاتے ہیں جنکی تعمیر میں اربوں روپے درکار ہوتے ہیں جبکہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری عوام کو ایسا صحت مند ماحول فراہم کرنا ہے جس میں وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں ۔حکومت اس بات پر بہت کم توجہ دیتی ہے جسکی وجہ سے بیماریوں کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ اسکے باوجود کہ ہر ذی شعور واقف ہے کہ علاج سے بہتر پرہیز ہے مگر بیورو کریسی اور صاحب اقتدار عالمی اور لوکل سرمایہ داروں کے مفاد اور اس میں سے ملنے والے اپنے حصے کیلئے علاج پر زور دیتے ہیں نا کہ بیماریوں سے محفوظ بنانے والی پالیسیوں کو اختیار کرنے کے۔ عوام الناس کو صاف پانی کی فراہمی،سیوریج سسٹم کی بہتری،ملاوٹ کا خاتمہ،صفائی ستھرائی،فوڈ گریڈز کے علاوہ پلاسٹک کی اشیاء کا کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال پر پابندی،گاڑیوں کو دھویں سے پاک کروانا،فیکٹریز کے فضلے کومحفوظ ضائع کروانا ،فیکٹریز کے پانی کیلئے لازمی ٹریٹمنٹ پلانٹس،زراعت میں صاف پانی کا استعمال،تمام مضر صحت کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری اور فروخت پر مکمل پابندی،زیادہ سے زیادہ درختوں کو لگانا ، کیا ان میں سے کوئی بھی ایسا کام ہے جس کو کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے ۔یہ سارے کام کرنے کیلئے اربوں روپے بھی نہیں چاہیں ۔اور نہ ہی کوئی طاقتور طبقہ اس میں رکاوٹ بنے گا ۔ اس لیے کہ ان تمام کاموں سے فوائد اٹھانے والے چھوٹے چھوٹے لوگ ہیں ۔ہاں یہ درست ہے کہ اگر یہ سب جو آج ہورہا ہے ہوتا رہے تو اس کے فوائد چند بڑوں کو ہی ہوں گے ۔ خاص افراد کیلئے تو ویسے ہی الگ سوسائٹیز بننے کا عمل جاری ہے ۔انکی ٹھنڈی گاڑیاں،صاف ماحول کی رہائش گاہیں،اعلیٰ دفاتر،اور مہنگے ہسپتال،ضرورت پر یورپ اور امریکہ کے ڈاکٹرز و ہسپتال انکی زندگیوں کو تو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن عوام الناس کو جمہوریت کے ثمرات پہنچانے کا ا س سے بہتر اور سستاطریقہ کچھ نہیں ۔ ان بنیادی کاموں کے بعد اگر وزیر اعظم،انکے وزراء کسی سے نبٹنے یا کسی خرابی کی بیخ کنی کا دعویٰ کریں گے تو یقین بھی آئے گا ۔ ابھی کیسے عوام یہ یقین کرلے کہ یہ ملک ترقی کرے گا جب ہر چوک پر بچے بھیک مانگ رہے ہوں،ویلفئیر کے نام پر بھوکوں کو کھانا کھلانے کے دستر خوان لگوانا بھی قابل تعریف قرار دیا جانے لگا ہو،رمضان میں زکواۃ لینے والے جان کی بازی ہار جانے کا سلسلہ دراز ہوتا جائے ، اور حکومت جو قانون بناتی ہے ان پر عمل ہوتا نظر نہ آئے ۔ہر شخص واقف ہے کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ بند کر دیے گئے ہیں لیکن شائد ہی کوئی ایسی دکان ہو جہاں سے شاپنگ بیگ میں چیز نہ دی جاتی ہو حتیٰ کہ کالے شاپنگ بیگ بھی عام استعمال میں ہیں،پلاسٹک میں گرم اشیاء نہیں ڈالنی چاہیے لیکن ہر ہوٹل سے پلاسٹک تھیلی میں ہی سالن ،روٹی ملتا ہے۔عام طور پر عوامی ہوٹلوں میں یوریا یا کچرے سے تیار کردہ پلاسٹک برتنوں میں کھانا دیا جاتا ہے،گھی اور تیل کون سا استعمال کیا جاتا ہے اس سے سب ہی واقف ہیں ،سر عام سموسے،رول،بن کباب،اور نا جانے کیا کیا زہر بک رہا ہے ، مشروبات کی کئی جعلی قسمیں سر عام بک رہی ہیں،ا درک بھی کیمیکل اور بنا کیمیکل دستیاب ہے،،دس فیصد فیکٹریز بھی اپنے فضلے کو محفوظ ٹھکانے نہیں لگاتیں، اور نہ ہی ٹریٹمنٹ پلانٹس رکھتی ہیں ،دوائیں اصلی ہیں یا نقلی اب یہ بھی پوچھنا پڑتا ہے،گوشت معلوم نہیں کونسا بک رہا ہے، دودھ بھینس کا ہے یا کیمیکل کا، پانی منرل کم فلٹر زیادہ بک رہا ہے، کینسر میں خطرناک اضافے کا سبب بننے والا گٹکا ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہر جگہ دستیاب ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ٹائرز اور کمپیوٹرز کے اسکریپ کو اپنے ممالک میں ویسٹ کرنے پر پابندی لگا چکے ہیں یہ پاکستان میں بڑی مقدار میں امپورٹ ہورہے ہیں جہاں انہیں ویسٹ کی بجائے بطور فیول یا ری سائیکلنگ کیا جارہا ہے جو ماحولیات کیلئے انتہائی خطرناک ہے لیکن کوئی ادارہ نوٹس لینے پر تیار نہیں۔ اگر ہماری جمہوریت اس طرح کے قوانین پر بھی عمل نہیں کروا سکتی تو کون یقین کرے گا کہ ہم ترقی کی منازل طے کریں گے ۔ |
|