کائنات کی ابتدا ء اور خاتمہ۔۔۔ سائنس اور قرآن کی نظر میں

بیسویں صدی کے وسط میں سائنس کی دنیامیں یہ نقطہ نظر رائج تھا کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور یہ ہمیشہ ہی قائم رہے گی۔۔ اس نقطہ نظر کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ کائنات مقررہ ،جامد اور غیر متغیر مادے کا مجموعہ ہے۔یہ نظریہ’’ مٹیریلسٹ فلاسفی ‘‘ پر مشتمل ہے اور یہ پوری کائنات کو وجود میں لانے والے خالق کے وجود کی نفی کرتا ہے۔ تاہم بیسویں صدی کے دوران جیسے ہی سائنس نے مزید ترقی کی اس نظریے کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا۔اکیسویں صدی کے آتے ہی بہت سے تجربات اور مشاہدات کے بعد جدید طبیعات دان اور مفکر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کی یقینا کوئی نہ کوئی ابتدا ء تھی اور یہ جامد اور غیر متغیر نہیں بلکہ کائنات مسلسل تحریک کے عمل سے گزر رہی ہے۔کائنات کی ابتدا ء کو قرآن کریم کی اس آیت سے واضح کیا جا سکتا ہے:’’ وہ ( اﷲ) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔‘‘ (سورۃ الانعام:101)
موجودہ ماہرین فلکیات بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پوری کائنات کافی عرصہ پہلے ہونے والے ایک عظیم دھماکہ کے نتیجے میں معرض ِ وجود میں آئی۔اس عظیم دھماکے یا کائنات کے وجود میں آنے والے واقع کو’’ بگ بینگ ‘‘ کہا جاتا ہے۔۔پورا سائنسی طبقہ اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ یہ دھماکہ پندرہ ارب سال پہلے واحد پوائنٹ یا نقطے سے نکلا تھا۔اس بگ بینگ سے پہلے مادہ، توانائی اور حتی کہ وقت جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی تھی۔ یہ حقیقت جو کہ حال ہی میں جدید طبیعات دانوں نے دریافت کی ہے چودہ سو سال پہلے قرآن میں اس کا اعلان کر دیا گیا تھا۔۔چودہ سو سال پہلے جب فلکیات کا علم نہ ہونے کے برابر یا اپنے ابتدائی دور میں تھا تب قرآن مجید میں کائنات کے توسیع ہونے کے عمل کو بیان کردیا گیا تھا۔’’ آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایاہے اور یقیناہم کشادگی کرنے والے ہیں۔‘‘( سورۃ الذٰریٰت:47)

اس آیت میں وسیع ہونے یا کشادگی کے بارے میں بات کی گئی ہے۔یعنی آسمان پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم اس کو اس سے بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔اس آیت میں عربی کے لفظ موسع کو وُ سع سے قرار دیا جائے تو مطلب ہوگا کہ ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت و قدرت موجود ہے۔اور سائنس بھی موجودہ دور میں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کائنات مسلسل تحریک اور توسیع کے عمل سے گزر رہی ہے۔بیسویں صدی کے شروع میں روسی طبیعات دان الیگزینڈرفرائیڈ من اور بیلجیم کے عالم تکوینیات جارجزلیمیٹری((
Georges Lemaitreنے تھیوری کے ذریعے یہ بات ثابت کی ہے۔۔اس تصور کی تصدیق 1929مشاہدات کے ذریعے لیے گئے اعدادوشمار کے ذریعے کی گئی۔

امریکا کے ماہر فلکیات ہبل نے ٹیلی سکوپ کی مدد سے آسمان کا مشاہدہ کرتے ہوئے دریافت کیا ستارے اور گلیکسیز ایک دوسرے سے دور حرکت کر رہے ہیں۔طبیعات کے قانون کے مطابق مشاہدے کے مقام کی طرف بڑھنے والی روشنی بنفشی رنگ کی ہوتی ہے جبکہ مشاہدے کے مقام سے دور بڑھنے والی روشنی گہری سرخی مائل رنگت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ ٹیلی سکوپ کی مدد سے آسمان کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہبل نے دریافت کیا کہ اپنے فاصلے کے لحاظ سے ستارے جو روشنی خارج کرتے ہیں وہ سرخی مائل رنگت کی ہوتی ہے۔جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ستارے اور گلیکسیز ہر وقت نہ صرف ہم سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دور بڑھ رہے ہیں۔۔ کائنات میں ہر شے کا ایک دوسرے سے دور حرکت کرنا دلالت کرتا ہے کہ کائنات توسیع کے عمل سے گزر رہی ہے۔یہ حقیقت قرآن مجید میں اس وقت بیان کر دی گئی تھی جب ٹیلی سکوپ یا اس جیسے دیگر ٹیکنالوجی کے آلات ایجاد ہونے کے قریب بھی نہیں تھے۔ یہ اس لیے کہ قرآن اس رب کا کلام ہے جو کائنات کا خالق و حکمران ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ کائنات کی ابتدا ء عظیم دھماکے سے ہوئی اور اس کے بعد سے یہ مسلسل توسیع کے عمل سے گزر رہی ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کائنات کا ماس کافی سطح تک پہنچنے گا اور کشش ثقل کی بدولت اس کی توسیع رک جائیگی اور واپس سکڑنے کے بعد کائنات خود ختم ہوجائے گی۔اور آخر ایسے نقطے پر پہنچ جائے گی جہاں سے اس کی شروعات ہوئی تھی ۔ کائنات کے اس خاتمے کو ’’بگ کرنچ ‘‘ کا نام دیا گیا۔سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے طبیعات کے پروفیسرز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ آج جو ہم دیکھ سکتے ہیں یا نہیں بھی دیکھ سکتے سب کچھ پروٹون سے بھی چھوٹے سائز میں تباہ ہوجائے گا۔یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے آپ ایک سیاہ سوراخ (
black hole)کے اندر تھے۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:
’’جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دئیے جاتے ہیں۔جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے(ہی) رہیں گے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء :104)

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اوراق کی مانند لپیٹ دینے کی بات کی گئی ہے جو کہ غور طلب ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کاغذ کو تہہ لگا کر لپیٹا جاتا ہے اور تہہ ایسی چیز کی لگائی جاتی ہے جو متوازی ہو ۔اسی طرح پہلے کے سائنسدان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کائنات بیضوی یا گول شکل کی ہے لیکن بیسویں صدی کے سائنس دان آئن سٹائن نے یہ نظریے پیش کیا کہ ہمارے کائنات متوازی ہے اور ململ کے کپڑے کی مانند ہے جس پر کوئی بھی چیز رکھ دی جائے تو اس چیز کے وزن کی بدولت جتنا زیادہ دباؤ ہوگا اس کے متاثرہ حصوں تک اس کی کشش ثقل کی قوت موجود ہوگی ۔جیسا کہ ہماری زمین کا اس کے وزن یا ماس کی وجہ سے خلا میں جتنا زیادہ دباؤ ہے اس کے اثرات چاند تک موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ چاند زمین کی کشش ثقل کی قوت کی وجہ سے اس کے گرد گھومنے پر مجبور ہے۔اسی طرح سورج کے زیادہ ماس کی وجہ سے اس کی کشش ثقل کے اثرات پلوٹو سیارے تک موجود ہیں جو بہت زیادہ فاصلہ ہونے کے باوجود سورج کی کشش ثقل کی وجہ سے اس کے گرد گھوم رہا ہے۔لیکن حال ہی میں ایک تحقیق ہوئی ہے جس کے مطابق پلوٹو سیارہ سورج کی کشش ثقل سے نکل کر کائنات میں اب آزادگھوم رہا ہے۔

کائنات کی ابتداء اور خاتمے کے بارے میں موجودہ سائنس کی تحقیقات چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں دئیے گئے بیانات سے مکمل اتفاق کرتی ہیں۔اس کے باوجود سائنس جتنی بھی ترقی کر لے کائنات اور اس کے اندر چھپے رازوں کو اس کو تخلیق کرنے والے خالق و مالک سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔لیکن پھربھی آج کے دور میں ہم انسان سائنس کی تحقیقات پر تو بہت یقین رکھتے ہیں لیکن قرآن میں بیان کیے گئے معجزات پر غور و فکر نہیں کرتے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اور ان لوگوں نے جیسی قدر اﷲ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔‘‘ (سورۃ الزمر :39)
 

آئی ایس آئی اور اہل مغرب کا واویلا



دشمن جب کسی قوم اور ملک پر فتح حاصل کرنا چاہے تو اس کے قلب پر وار کرتا ہے اور یہی حال پاکستان کے دشمنوں کا ہے جب بھی اسے اپنی شکست نظر آنے لگتی ہے وہ مسلح افواج اور آئی ایس آئی کو نشانہ بناتے ہیں اور مختلف اطراف سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس بار بھی وہ انتہائی احمقانہ انداز سے ایک تعلیمی ادارے کی رپورٹ کی صورت میں حملہ آور ہوئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ لندن سکول آف اکنامکس کے ہاورڈ یونیورسٹی کے فیلو Waldman Matt کی کوئی سٹرٹیجک یا دفاعی اہمیت ہے تاہم اسے دشمن کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور تمام پاکستانیوں کو یقین ہے کہ یہ رپورٹ مغربی ممالک کی نیت کی غماز ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی طالبان کے مالی اور تیکنیکی مدد کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔ نامعلوم طالبان رہنماؤں کے انٹرویوز کا ڈھونگ رچا کر رپورٹ کو جاندار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے نو طالبان لیڈرز کون تھے افغانستان کے انتہائی مغرب دشمن علاقوں میں ان خاص لوگوں تک مصنف کی پہنچ کیسے ممکن ہوئی یہ باتیں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ صدر پاکستان کی طالبان سے ملاقات کا بھی بے بنیاد ذکر کیا گیا ہے۔ آئی ایس آئی کی طالبان کی سپریم کونسل کے اجلاسوں میں شرکت بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ رپورٹ کے مندرجات تو اب تک سب کو معلوم ہو چکے ہیں لیکن اس کے محرکات ضرور قابل غور ہیں اور ہاں یہ بات بھی بعید از عقل ہے کہ اگر طالبان کو واقعی پاکستان سے مدد مل رہی ہے تو کیا اب اس مدد کی ضرورت ختم ہو گئی ہے جو وہ خفیہ مدد دینے والے مددگار کا راز فاش کر رہے ہیں طالبان بھی جانتے ہیں کہ انہیں اپنی بقا کے لیے ابھی یہ جنگ لڑنی ہے اور اگر پاکستان حقیقت میں مدد کر رہا ہے تو کیا اس کے بعد بھی وہ ان کی مدد جاری رکھے گا یا رکھنے کی پوزیشن میں ہوگا کہیں ایسا تو نہیں کہ وسط ایشیائی توانائی کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے علاقے میں اپنے قیام کا جواز بنانے کے لیے مغربی خفیہ ایجنسیاں ان کی مدد کر رہی ہوں اگر یہ بات اہل مغرب کو دور کی کوڑی محسوس ہو رہی ہو تو بھی اس کے امکانات آئی ایس آئی کے طالبان کی مدد کرنے سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے الزامات اب مغرب کا معمول بن چکا ہے اس سے پہلے ایڈمرل مائک ملن یہ الزام لگا چکے ہیں کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا ہے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس بھی آئی ایس آئی پر طالبان کی مدد کا الزام لگا چکے ہیں۔ تاہم یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب امریکہ افغانستان میں بدترین حالات سے دو چار ہے جب صرف چند ہفتوں میں افغانستان میں تیس اتحادی فوجی مارے گئے۔ امریکہ اسوقت افغانستان میں ستر بلین ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے اب تک ہزار سے زیادہ امریکی لاشیں لے جا چکا ہے جبکہ اسکے اتحادی لاشوں کی تعداد بھی ہزار کے قریب ہے۔ ایسے میں دوسروں پر الزام دھر دینا بہت آسان راہ فرار ہے اور محسوس یہی ہو رہا ہے کہ امریکہ اور اسکے مغربی اتحادی نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ پاکستان، آئی ایس آئی اور پاک فوج سے خوف زدہ یہ ملک اور آئی ایس آئی سے کئی گنا زیادہ بجٹ اور وسائل رکھنے والی ان کی خفیہ ایجنسیاں اپنے تمام تر مصائب اور ناکامیوں کا ذمہ دار اس ادارے کو قرار دیتی ہیں جس کے وسائل ان کے مقابلے میں بہت کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں جس کو بیک وقت سی آئی اے، ایم آئی 5-، را، رام اور موساد بلکہ کے جی بی کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے اگر ان مقابلوں کے بعد وہ ان کی آنکھوں میں دھول بھی جھونک دے تو ان ملکوں کو باعزت طریقے سے اپنی ہار مان لینی چاہئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی کسی بھی مقصد کے لیے اپنے لوگوں کی جان لینے کی سوچے گا بھی نہیں اور وہ دہشت گردی کی اس نام نہاد اور مسلط کردہ جنگ میں اپنے کئی اہلکاروں کی قربانی دے چکا ہے اس کے دفاتر کو حتیٰ کہ اسکی بسوں تک کو نشانہ بنایا گیا اور طالبان ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے رہے۔ اس سب کچھ کے بعد بھی اس قسم کی لا یعنی رپورٹس شائع کرنے کا سبب کچھ اور ہے یہ جس کو خود سمجھتے ہیں۔ اصل میں افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ اور اس کے حواریوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہوں نے سوویت یونین کو تڑوانے کے بعد جس افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑا تھا وہاں انہیں اس قدر شدید مزاحمت اور ہزیمت کا سامنا کر نا پڑے گا اب جب وہاں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مورد الزام پاکستان کو ٹھہرا دیا جاتا ہے نیٹو کے بے تحاشہ ٹینکرز جسکی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ لے چکے تھے ظاہر ہے کہ طالبان نے تباہ کیے کیا اس میں بھی پاک فوج ملوث تھی اور کیا جی ایچ کیو، پریڈ لین کی مسجد اور آئے روز پاک فوج کے قافلوں پر حملے بھی یہی پاکستانی حمات یافتہ طالبان کر رہے ہیں اور کیا پاکستان ان کو اسی سب کچھ کرنے کے لیے مدد فراہم کر رہا ہے۔ اور کیا صدر پاکستان پچاس زیر حراست ان طالبان کو آزادی کی نوید سنانے گئے تھے جن کو وہ مسلسل اپنی شریک حیات کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور ان سے کسی نرمی کے راودار نہیں۔ اصل حقیقت وہی ہے جو پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ یہ لوگ اب بوکھلائے ہوئے ہیں اور کھسیانی بلی کھمبا ہی نوچتی ہے یہ مغربی طاقتیں تو یہ تک کہہ چکی ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو اسکی فوج میں موجود طالبان کے حمایتیوں سے خطرہ ہے جبکہ پاکستانیوں اور پاک فوج کو یقین ہے کہ یہ ایٹمی قوت ان کے قوت ایمانی کے بعدان کی بقا کی ضامن ہے اس لیے وہ مغربی اور مشرقی ہر بد نیت سے اس کی حفاظت کرینگے اور ان کے سامنے ہار نہ مانیں گے۔ دراصل مغربی دنیا اسلام اور خاص کر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے خوفزدہ ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس ملک کا مذہب اسلام ہے لہٰذا یہاں داڑھی بکثرت ہی نظر آئے گی اور یہ بھی کہ اس ملک کا قومی لباس شلوار قمیض ہے لہٰذا اکثریت اسی لباس میں ملبوس ہو گی وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہاں تمام لوگ نمازی ہیں لہٰذا ٹوپی کا استعمال بھی عام ہوگا اب اگر ان سب خوبیوں اور خاصیتوں کے باعث امریکہ اور اہل مغرب پورے پاکستان کو طالبان سمجھے تو ان کی جہالت ہے۔ اور ان کو اپنی سوچ پر غور اور نظر ثانی کر لینی چاہیے اور اگر وہ پاکستانی قوم اور فوج کے بارے میں اپنے معاندانہ رویے میں تبدیلی کر لے تو اس کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ اس وقت پاکستان کو امریکہ کی ضرورت نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے ورنہ بصورت دیگر افغان جنگ اس کو مزید مہنگی پڑے گی پاک فوج نے اپنے جتنے افسروں اور جوانوں کو اس جنگ میں کھویا اگر اس کے باوجود بھی مغرب اس کو قصور وار قرار دے رہا ہے تو حکومت پاکستان کو بھی اپنی حکمت عملی پر غور کر لینا چاہیے۔ زیر تبصرہ رپورٹ کی وجوہات میں سے ایک پاکستان کا شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنا بھی ہے جس کے لیے امریکہ پورا زور لگا رہا ہے اور مختلف حربے آزما رہا ہے۔

ایران پر مغربی پابندیاں لگنے کے باوجود پاکستان کا اس کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی مغرب کے سیخ پا ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے بہرحال وجوہات جو بھی ہوں سب سے بڑی وجہ بدنیتی اور مغرب کا وہ دکھ ہے کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت بن کر اس کے صلیبی ارادوں کی راہ میں روکاوٹ کیونکر بن گیا۔

جیسا کہ میں اوپر لکھ چکی ہوں کہ حکومت پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی ضرور کر لینی چاہیے اور اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے صرف میڈیا وار پر اکتفا کرنے کی بجائے سفارتی سطح پر اسے اٹھانا چاہیے اور برطانیہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک سے ایسی رپورٹ شائع ہونے پر پاکستان سے سرکاری طور پر معافی مانگے اور یہ گارنٹی بھی لینی چاہیے کہ آئندہ ایسی بے بنیاد خبروں اور رپورٹس کو شائع نہیں کیا جائے گا جمہوریت اور آزادی صحافت اپنی جگہ لیکن ذمہ داری کا ثبوت دینا ان کے حق میں بھی بہتر ہے
۔

اصول کا زندگی

اصول کا  زندگی

آج سے چند ماہ قبل میں نے موبائل پر لڈو سٹار گیم انسٹال کی اور باتھ روم سے لے کر بیڈ تک، ڈائننگ ٹیبل سے لے کر ورک ٹیبل تک، جب بھی فارغ وقت ملتا، لڈو کھیلنا شروع کردیتا۔
اس گیم کی کرنسی کوائنز ہیں اور گیم کھیلنے کیلئے ان کی مخصوص تعداد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب آپ یہ گیم انسٹال کرتے ہیں تو اتنے کوائنز لوڈڈ ملتے ہیں کہ آپ گیمز کھیلنا شروع کردیں اور پھر جوں جوں آپ جیتتے جاتے ہیں، سکوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔
شروع شروع میں تو مجھے جیت ہار سے زیادہ گیم کھیلنے میں دلچسپی ہوا کرتی تھی، چنانچہ میں گیمز ہارتا زیادہ اور جیتتا کم، جس سے میرے پاس موجود سکے کم ہوتے گئے۔ اس وقت میرے لئے یہ گیم ایک شغل ہوا کرتا تھا اور مجھے جیتنے سے زیادہ مخالف کی گوٹیاں مار کر یا اسے تنگ کرنے کا مزہ آتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ میرے پاس سکوں کی تعداد اتنی کم ہوگئی کہ مجھے مزید گیم کھیلنے کیلئے یا تو یہ سکے خریدنے پڑنے تھے یا پھر ایپ کے اندر ایک ویڈیو کلپ کو دو منٹ تک واچ کرنا تھا جس سے مجھے کچھ سکے مل جاتے۔ یہ ویڈیو ایک پیڈ کانٹینٹ تھا جس کو دیکھنے سے لڈو سٹار کو پیسے ملتے ہیں۔
بڑی مشکل سے کچھ سکے اکٹھے ہوئے تو میں نے سوچا کہ اب سنجیدگی کے ساتھ ان میں اضافے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ میں نے لڈو گیم جیت کی نیت سے کھیلنا شروع کردیں۔ ہر گیم کھیلتے وقت نروس ہوتا، ہر چال چلنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتا، جب گیم آخری لمحات میں داخل ہوتی تو ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوجاتے کہ کہیں ہار ہی نہ جاؤں۔
ان دنوں میں غالباً 500 یا 1000 سکوں کی بازی لگایا کرتا تھا اور جیت کی شکل میں یہ سکے مجھے مل جاتے جبکہ ہارنے پر یہ میرے اکاؤنٹ سے منفی ہوجاتے۔
پھر آہستہ آہستہ مجھے جیتنے کی ٹیکنیک آتی گئی۔ اب میری جیت کا تناسب بڑھنا شروع ہوگیا،سکوں کی تعداد چند سو سے بڑھ کر ہزاروں میں اور پھر ایک لاکھ ہوگئی۔
پھر ایک دن میں نے سوچا کہ رسک لیا جائے اور بڑی بازی لگائی جائے۔ میں نے 50 ہزار سکوں کی بازی لگائی اور جیت گیا جس سے میرے اعتماد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
پھر میں نے بڑی بازیاں لگانی شروع کردیں۔ ایک دن آیا جب میں نے دل بڑا کرکے ڈھائی لاکھ سکوں کی بازی لگائی اور وہ بھی جیت گیا۔ اب میرے پاس دس لاکھ سکے ہوچکے تھے۔ اب میں 500، 1000 یا 10 ہزار کی بازیاں کھیلنے والوں میں سے نہیں رہا تھا۔ اب میں بڑی بڑی بازیاں کھیلنا شروع ہوگیا۔
ہار اور جیت دونوں ملتی گئیں لیکن چونکہ میں رسک بڑے لیتا تھا، اس لئے جیت کا تناسب بھی بڑا ہوتا گیا۔
آج کل میرے پاس کئی بلین کوائنز موجود ہیں۔ لڈو میں اب بھی کھیلتا ہوں لیکن وہ پہلے جیسا جوش نہیں رہا۔ اب میری ہر بازی 10 ملین یعنی ایک کروڑ سکوں کی ہوتی ہے۔ اب گیم کھیلنے کے دوران نہ تو ہاتھ پاؤں پھولتے ہیں اور نہ ہی سانسوں کی ترتیب آگے پیچھے ہوتی ہے۔
اب گیم جیتنے پر نہ تو بے انتہا خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی ہارنے پر افسوس۔ کئی دفعہ تو میں خود ہی گیم چھوڑ کر چلا جاتا ہوں کیونکہ سامنے والا اپنی بازی چلنے میں کچھ دیر لگا دیتا ہے۔
لڈو سٹار کا یہ اصول زندگی پر پوری طرح سے اپلائی ہوتا ہے۔
جب تک آپ کے پاس وسائل اور پیسے کم ہوتے ہیں، آپ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنا فوکس وسائل میں اضافے کی بجائے خوشیوں کو انجوائے کرنے میں صرف کریں تو آپ کے پاس وسائل تو نہیں بڑھیں گے لیکن زندگی بڑی بھرپور گزرے گی۔
وسائل بڑھانے ہیں تو اکنامکس کے اصول کے مطابق بڑا رسک لینا پڑے گا جیسے میں نے لیا اور پھر میرے پاس کوائنز کی تعداد اربوں میں چلی گئی۔
لیکن جب وسائل میں اضافہ ہوجائے تو زندگی بور ہونا شروع ہوجاتی ہے، پھر وہ چھوٹے چھوٹے ایونٹس بڑی بڑٰی خوشیاں نہیں دیتے۔ چھوٹی سی خوشی کیلئے بھی آپ کو کوئی بہت بڑے ایونٹ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کی زندگی میں اسی طرح کا جوش واپس آئے گا جو کم وسائل میں دستیاب خوشیاں دیا کرتی تھیں۔

انسان کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ اسے یہ پتہ لگ جائے کہ اسے زندگی میں کتنے وسائل چاہئیں جن سے وہ بھرپور خوشیاں حاصل کرسکے۔ اگر آپ کو یہ پتہ ہے تو پھر فوکس اتنے وسائل کو حاصل کرنے پر ہی رکھیں جن سے آپ کو مطلوبہ خوشیاں مل سکیں، زیادہ کی طرف جائیں گے تو خواری ہی ملے گی

روسی سفیر کا قتل!

دنیا سازشوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، ہر طرف سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ہم سب کسی نا کسی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں یا نا کریں مگر ایسا ہی ہے۔ ان سازشوں سے نجات پانا یا ان کے چنگل سے خود کو بچاپانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس وقت بچا سکتے ہیں جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ کس سازش کا حصہ ہیں یا بن رہے ہیں۔ دنیا جہان میں سیاسی جماعتی کسی نا کسی مخصوص سازش کا حصہ بنا ہوا ہے۔ کسی کو کوئی استعمال کرتا ہے اور اسی ملک میں کسی اور کو کوئی اور استعمال کرتا ہے۔ ان سازشوں کا اصل مقصد کیا ہے؟؟؟ ان سازشوں کا جو مقصد بظاہر نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلئے سازشوں کا جال بچھائے جا رہا ہے۔ 

ہمیں سازشوں کو درپردہ جھیلنا پڑتا ہے، گھریلوں سازشیں، اداروں میں سازشیں، نوکری میں سازشیں، کھیلوں میں سازشیں غرض یہ کہ سب طرف سے آپ ان سازشوں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ان سے نکلنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے سازش ہی نہیں بلکہ دنیا سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ دنیا جہان میں لوگوں کی کثیر تعداد ان تمام معاملات سے اپنے آپ کو باز رکھنا چاہتی ہے۔ یہ کثیر تعداد اپنی اپنی دنیا میں مگن رہنا چاہتے ہیں اپنے خاندان اور بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں کی خواہشات کی تکمیل میں اس قدر سرگرداں ہیں کہ انہیں یہ بھی نہیں ہوتا کہ ملک کہ یا شہر کہ حلات کیسے ہیں۔ سازش بڑی ہو یا چھوٹی، سازش گھریلو ہے یا کہ بیرونی یا بین القوامی اس کا حصہ سب کو کسی نا کسی طرح بنا لیا ہے۔

کوئی کچھ لے کر کسی سازش کا حصہ بن جاتا ہے اور کوئی کچھ دے کر کسی سازش کو جنم دیتا ہے۔ سچ پوچھیئے تو ان سازشوں کی باس بھی فضائی آلودگی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ 

آج دنیا کی سب سے بڑی سازش مسلمانوں کو ہر حال میں تنگ کر کہ رکھنا ہے۔ پاکستان مسلم دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو جوہری توانائی کی باضابطہ اہلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی منظم اور بہادر فوج کا حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان دنیائے اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس جھومر کی چمک کو ماند کرنے کیلئے اسلام مخالف ممالک نے اسلامی ممالک کو پاکستان کے کیخلاف استعمال کرنا شروع کررکھا ہے۔ اب سے کچھ سالوں پیچھے چلے جائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کے دنیا میں کہیں بھی کسی بھی کونے میں کسی قسم کا نا خوشگوار واقع رونما ہوا۔ ساری دنیا کی مشکوک نظریں پاکستان کی جانب اٹھنا شروع ہوجاتی تھیں اور کسی نا کسی طرح ملزمان یا مجرموں کا تعلق پاکستان سے جوڑ دیا جاتا تھا۔ پاکستان میں بیٹھے اس سازش کا حصہ بننے والے اس الزام کی توثیق کرتے اور اس نام نہاد ملزم کے گھر تک پہنچ جاتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ ہم پاکستانی ہر وقت اس دعا میں مشغول رہتے کہ ساری دنیا میں کہیں کچھ نا ہو۔ پھر پاکستان نے دفاعی حکمتِ عملی ترک کی اور جارحیت سے کام لیتے ہوئے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ ساری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی ایک طرف اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی ایک طرف ہے۔ ہمارے ملک میں تواتر سے ہونے والے واقعات نے دنیا کو شرمندہ ہونے پر مجبور کردیا۔ پاکستان نے دہشت گردی سے جنگ میں اپنا بہت نقصان کیا مگر ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا انگنت جانوں کا نظرانا ابتک پیش کیا جاچکا ہے جن میں فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ اسکول کے بچوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ پاکستان کی ثابت قدمی نے دشمن کو نظریں نیچی کرنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان نے دنیا کی سازشوں کو بینقاب کیا اور کسی حد تک دنیا کا منہ بند کردیا ہے۔ 

پچھلے کچھ عرصے سے ایک اور مضبوط اسلامی ملک "ترکی" نے اسلام کیخلاف سازشوں کو بے نقاب کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ سازشوں کا دور دورہ کافی عرصے سے ترکی میں نشونما پا رہی تھی جس کا بھرپور مظاہرہ فوجی بغاوت کی صورت میں منظرِ عام پر آگیا مگر آفرین ہے ترک عوام پر کہ انہوں نے راتوں رات ایک انتہائی منظم سازش کو ناکام بنادیا اور اپنے ملک کو ایک نا ختم ہونے والی تباہی سے بچالیا۔ سازشیں کرنے والے بدل بدل کر سازشی جال پھینکتے ہیں یہ ہم پاکستانیوں سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ ترکی جو کہ ایک پر امن ملک ہوا کرتا تھا اب وہاں دھماکہ بھی ہو رہے ہیں اور دیگر بہت سارے نا خوشگوار واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ ابھی تازہ ترین واقع بھی یقینا کسی نئی سازش کا پیش خیمہ ہے ۔ روسی سفیر کا قتل ترکی کو عراق یا شام بنانے کی سازش لگ رہی ہے۔ مگر دشمن کو اور سازشی ٹولے کو یہ بہت اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ ترکی عراق اور شام نہیں۔ اب اس سازشی ٹولے کی سازشیں ناکم ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ترکی کو روسی سفیر کے قتل کے معاملے کو بہت تدبر سے لینا ہوگا اور روس کے ساتھ بھر پور تعاون کی یقین دہانی کروانی ہوگی۔ ترکی کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے یوں تو یہ قوم اور اسکے حکمران امتحانوں میں پاس ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے ملک کی سالمیت اور بقاء کیلئے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرینگے۔ روس کو بھی کسی سازش کی بھینٹ چڑھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہئے۔ ورنہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر کھڑی ہے اور پھر کسی کیلئے کچھ نہیں بچنے والا۔ اب روس اور ترقی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ دنیا کو کسی نئے آگ اور خون کے کھیل سے باز رکھیں۔

معیاری تعلیم میں فرق کیوں؟

جناب عالیٰ میری ماہرین تعلیم سے گزارش ہے کہ آخر پورےملک میں یکساں معیار تعلیم رکھنے میں کو ن سی رکاوٹ حائل ہے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورے ملک کے ماہرین تعلیم کو یکجا کر کے اور ان کی مشاورت سے پہلی جماعت سے میٹرک تک اور انٹر سے گریجویٹ تک یکساں کورس رکھا جائے اور یکساں کتابیں ہوں اور ان کتابوں میں چاہے وہ آکسفورڈ کی ہوں یا عام ادیب یا مصنف کی ، اگر وہ اس قابل ہوں تو اس کو کورس میں ضرور شامل کیا جائے تاکہ ان غریب طالب علموں کا احساس محرومی ختم ہو جائے کہ اُن کا کورس کسی اعلیٰ تعلیمی ادارہ کے کورس سے بہتر نہیں ہے۔ لیکن شاید ہمارے حکمران یہ نہیں چاہتے کہ غریب کا بچہ اور اُن کا بچہ ایک ہی نصاب کی تعلیم حاصل کریں کیونکہ اس طرح ان کی حکمرانی قائم رہنا مشکل ہوگی ۔ میں سرحد حکومت کے اس فیصلے کی تائید کرتی ہوں کہ پورے صوبے میں ہر جماعت کی یکساں کتابیں ہوں اور پھر نجی اسکول کا 10ہزار فیس ادا کرنے والا طالب علم یا 10 روپے ادا کرنے والا سرکاری اسکول کا طالب علم ہو ان کی کتابیں یکساں ہوں تاکہ ملک کا معیار تعلیم بلند ہو سکے ۔

CRICKET SCHEDULE


CRICKET SCHEDULECOMPLETE SCHEDULE
TeamsDate & Time
 India        VS      England     -  5th TestDec 16, 2016 - 9:00 PST
 Australia VS      Pakistan     -  2nd TestDec 26, 2016 - 04:30 PST
 Australia VS      Pakistan     -  3rd TestJan 03, 2017 - 04:30 PST

The labor movement travel story اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی

اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی‘‘ نام ہے اُس کتاب کا جو پروفیسر شفیع ملک صاحب سابق صدر نیشنل فیڈریشن پاکستان نے تحریر کی ہے۔ اس کی رونمائی گذشتہ دنوں ورکرز ٹرسٹ گلشن اقبال کراچی میں منعقد ہوئی۔اس اجتماع میں مزدور تحریک سے وابستہ حضرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس کتاب پر تبصرہ سے پہلے پاکستان میں اسلامی مزدور تحریک کی بنیاد رکھنے والے شخص کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ مجددِ وقت سید مودودی ؒ نے دنیا میں برسوں سے قائم سرمایادارانہ سیکولر نظام اور اس کے بطن سے رد عمل میں نئی اُٹھنے والی کمیونزم نظام کی بڑھتی ہوئی تحریک اور خصوصاً مزدوروں میں کیمونزم کے نفوس اور اس کے سامنے بند بھاندنے کے لیے ملکی سیاست، طلبہ کے ساتھ ساتھ مزدورں میں بھی اسلامی مزدور تحریک کے قیام کے لیے اپنے رفقاء کو لگایا تھا۔جماعت اسلامی نے 1949ء میں لیبر ویلفیئر کمیٹی، جس کا نام 1957ء میں لیبر فیڈریشن آف پاکستان رکھا گیا تھا ، کے نام سے مزدوروں میں کام کی ابتداء کی تھی۔ آخر میں نیشنل لیبر فیڈریشن کے نام سے اب بھی کام کر رہی ہے۔ پروفیسرشفیع ملک نے اسی سے وابستہ رہنے کے بعد میں جماعت اسلامی کی ہدایت پر1954ء مزدور فیلڈ میں باقاعدہ طور پرکام شروع کیا۔ صاحبِ کتاب نے جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ کی ذمہ داری سے فراغت کے بعد حیدر آباد میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری میں سید مودودیؒ کی دعا،چودھری غلام محمد کی فہم فراست اور مولوی فرید احمد شہید کی حوصلہ افزائی کے تحت’’سیمنٹ لیبر ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے اسلامی جمعیت طلبہ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کام مسجد سے شروع کیا۔پروفیسر شفیع ملک نے اس سے قبل ایک کتاب فروری 2011ء میں ’’مزدور تحریک،مزدورمسائل اور سید مودودیؒ کے عنوان سے لکھی تھی جو 1949ء سے 1969ء کے دوران اسلامی مزدور تحریک کی جد وجہد کے حوالے سے ہے۔ تازہ کتاب میں 1969ء سے تاحال جد و جہد کی کہانی درج ہے۔ ملک صاحب1969ء میں نیشنل لیبر فیڈریشن سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اب تک پیرانہ سالی کے باوجود ورکرز ٹرسٹ سے اسلامی مزدور تحریک کی سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیں۔کتاب کے مندراجات اور مزدور تحریک کوکیمونزم سے ہٹا کر اسلامی مزدور تحریک پر چلانے کے کامیاب تجربہ کی ملک صاحب کے کاموں کی کہانی تو کئی کالموں میں مکمل ہو گی۔ اس سے قبل ہم مفاد پرستانہ اور کمیونسٹ لیبر یونین کے طریقہ واردات کے متعلق کچھ اپنا تجربہ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ یہ 1969ء کی بات ہے کہ ہم ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے۔ اس کمپنی کے پرسنل منیجر جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے ،کے کمپنی کی انتظامیہ سے کسی بات پر اختلافات ہوئے تو انہوں نے ایک پاکٹ یونین بنا ڈالی۔ یونین کے لوگ ان کے گھر پی ای سی ایچ سوسائٹی میں بیٹھ کر ان کی ہدایات کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنی کے سامنے نت نئے مطالبات رکھتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ مزدوروں کو چھوڑ کرکسی کی ذاتی خواہشات کے مطابق تو مطالبات منظور نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ایک دن پرسنل منیجر کی ہدایات پرکارکنوں نے ہڑتال کر دی۔ کمپنی کی ایک برانچ کے سامنے شامیانے لگادیے ۔یہ کمپنی لوگوں کو قسطوں پر گھریلو اشیاء فروخت کرتی ہے۔ کارکنوں کے پاس لوگوں سے ماہوار قسطیں وصول کرنے کے لیے کمپنی کی رسیدیں ہوتی تھیں۔ یونین نے کارکنوں کوکہا کہ جب تک یونین کے مطالبات منظور نہیں ہوتے لوگوں سے پیسے وصول کرو اور کھاؤ۔ جن کے پاس رسیدیں نہیں ہیں وہ بک کیپر(راقم) سے رسیدیں لے لیں۔میں جو جماعت اسلامی سے روشناس تھا اس غلط کام میں کیسے شریک ہو سکتا تھا۔ میں نے رسیدیں کارکنوں کو نہیں دیں اور ادھر اُدھر چھپا دیں۔ کچھ ملازمین نے پہلی پاکٹ یونین کے مقابلے میں دوسری یونین کھڑی کر کے راقم کو اس کا صدر بنا دیا۔ہم نے کارکنوں کو کہا اپنے جائز مطالبات تک رہیں اور غلط کام نہ کریں۔اس سے قبل ہڑتالی کیمپ میں شہر میں موجود دوسری یونین کے لوگ آتے اور مزدور مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگاتے۔ قطعہ نظر اس کے یونین کے مطالبات جائز ہیں یہ یونین پاکٹ یونین ہے۔ یونین کے لوگوں کو بھی شہر میں دوسری ہڑتالی یونین کے مطالبات کے لیے بلایا جاتا اور بغیر معلومات کے مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگاتے۔ ہمارے پاس کرایہ کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور دوسری یونین کے عہدے دار گاڑیوں میں تشریف لاتے مہنگے ہوٹلوں میں کھانے کھاتے ۔ خیرپھر ایک دن معلوم ہوا کہ یونین کنیز فاطمہ صاحبہ کی فیڈریشن کے ساتھ وابستہ ہے۔ایک دن کارکنوں کو ٹرنینگ کے لیے کنیز فاطمہ کی فیڈریشن کے دفتر میں بلایا گیا۔ مقریرین نے مل مالکان کے ظلم اور فیکٹریوں پر کارکنوں کے حقوق پر تقریریں کیں حقوق نہ ملنے پر چھین لینے اور ہڑتال پر اُکسایا گیا۔ مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگائے۔ جب ہمار ی باری آئی تو ہم نے اسلام اور مزدور کے حقوق پر بات کی۔ فیکٹری میں مزدور کو پیداواربڑھانے چاہیے ، مل ملکان کو مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرنی چاہیے ۔ اسلامی اصول پر مالکان اور مزدور کے معاملات طے ہونے چاہییں۔کیمونسٹ نظریات پر قائم مزدور تحریک کی فیڈریشن کی سربراہ کو اسلامی اصول پر قائم آجر و آجیر کے تعلوقات سے کیا واسطہ! بہر حال کنیز فاطمہ صاحبہ نے ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمیں بیٹھ جانے کا حکم دیا۔ پاکٹ یونین کے جن کارکنوں نے کمپنی کے پیسے لوگوں سے وصول کر کے کمپنی کے کھاتوں میں جمع نہیں کرائے اور خود استعمال کر لیے ان کو نکال دیا ان پر خیانت کا مرتکب ہونے کے کیس بھی قائم کیے۔ پاکٹ یونین بنانے والے ،پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پرسنل منیجر کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ جن کارکنوں نے غلط کام نہیں کیا ،راقم سمیت ان کو نوکری پر رکھا گیا اور یونین ختم ہو گئی۔ راقم بعد میں بتیس سال نوکری کر کے ایریا منیجر مارکیٹنگ کی پوسٹ پر ریٹائرڈ ہوا۔اب بھی کمپنی سے پینشن وصول کر رہا ہے۔صاحبو! کہاں گئی پاکٹ یونیں اور کہاں گئے ان کے ناجائز مطالبات؟ پروفیسر شفیع ملک کی کتاب کے مطابق مزدورں کی اسلامی اور ذمہ دار قسم کے شہری بنانے کے لیے انتھک کوشش کی ہے۔جس سے آجر اور آجیر کے درمیان صحت مند ماحول پیدا ہوا اور ملکی فیکٹریوں کی پیداواری صلاحیت بڑھی اور اس صلاحیت کو بڑھانے والے مزدورں کو بھی اس کا جائزحصہ ملا۔ اور اس ملک سے غیر فطری اور جبر پر قائم کیمونسٹ مزدور تحریک سے بھی چھٹکارا ملا۔ اسس پر اگلے کالم میں بات ہو گی انشاء اﷲ۔